زمانہ یوں ہی مجھے روز آزماتا رہا
غزل
مومنؔ ہندیؔ


زمانہ یوں ہی مجھے روز آزماتا رہا
کبھی رلاتا رہا اور کبھی ہنساتا رہا
انہیں تو آنکھ ملانے کا بھی شعور نہیں
تمام عمر جنہیں آنکھ پر بٹھاتا رہا
یہ ضبط غم ہی مرا حسن پارسائی ہے
کہ دل میں روتا رہا اور مسکراتا رہا
حصار غم میں تڑپنے سے کم نہیں ہو گا
سبق خرد کو یہی روز میں پڑھاتا رہا
جنہیں تھا حسنِ کلامی پہ ناز اے مومنؔ
انھیں کی میٹھی زبانوں سے زک اٹھاتا رہا

