یہ رت اگر ہے پیار کی
غزل
ایاز بستوی، ممبرا
یہ رت اگر ہے پیار کی فضا میں کیسا رنگ ہے
جو پھول سا گداز تھا وہ آج مثل سنگ ہے
جو راہ پر نہ آسکے ، جو حق طلب نظر نہ ہو
وہ کور چشم ہے یہاں وہ پاوٴں سے بھی لنگ ہے
یہ تجربات تلخ ہیں جہاں میں آج دیکھ لیں
جو تنگ دل ہے آدمی، زمیں بھی اس پہ تنگ ہے
شراب زندگی سے بھی یہ تشنگی نہ بجھ سکی
جہان خواہشات میں یہ نفس بے امنگ ہے
یہ جسم وجاں ہیں ایک سے ہے خوں کا رنگ ایک ہی
اب اپنے آپ سے یہاں نہ جانے کیسی جنگ ہے
یہ مغربی فضا کا ہی اثر ہے قوم و نسل پر
فضا جو بے حیا ہوئی ، چمن چمن جو ننگ ہے
ملے ایازؔ کو خدا حیات نو کا حوصلہ
ہے چشم تر بجھی بجھی نڈھال انگ انگ ہے

