وصالِ یار کوئی کیسے بھول پاتا ہے
طرحی غزل بر مصرع: مگر ہمیں تو وہی ایک شخص بھاتا ہے
فخر عالم، ممبرا

My post content
وصالِ یار کوئی کیسے بھول پاتا ہے
غمِ فراق سے تو دم نکلتا جاتا ہے
بس اس گمان پہ شاید کہ آج وہ آ ئیں
وہ شام ہی سے چراغوں سے گھر سجاتا ہے
وفا کا دعوی تو کرتے ہیں سب ہی دیوانے
”مگر ہمیں تو وہی ایک شخص بھاتا ہے “
یہ اور بات کہ وہ دور ہو گیا مجھ سے
یہ کم نہیں ہے کہ خوابوں میں روز آتا ہے
تمہیں بتاؤ کہ میں کیسے بھول سکتا ہوں
وہ دور ہی سے سہی پیار تو جتا تا ہے
رگوں میں خون تو رقصاں ہے بے وفائی کا
وفا کے گیت مگر پھر بھی گنگناتا ہے
وفا کا وعدہ جو ”قالو بلا“ سے ہم نے کیا
تمہیں بتاؤ کہ عالم ؔ اسے نبھاتا ہے

