تیری خُوشبو
نظم
سلیم رشکؔ، ممبرا
مُجھے مدہوش کر یہ حال سے بے حال کرتی ہے
تری خُوشبو کہیں جب میرا استقبال کرتی ہے
بیا ں سانسوں کی خوشیوں کا نہیں مُمکن صنم میرے
تری تعریف کی خاطر ہیں سب الفاظ کم میرے
بھلا دیتی ہے اِک لمحے میں سارے درد و غم میرے
یہ خود میں جذب کر لیتی ہے سب رنج و الم میرے
دِ لی خوشیوں کی دولت دے کے مالا مال کرتی ہے
تری خُوشبو کہیں جب میرا استقبال کرتی ہے
خزانہ دیتی ہے مُجھ کو سُرور و کیف و مستی کا
حسیں احساس کرواتی ہے یہ حوروں کی بستی کا
بڑھاتی ہے یقیں دِل میں کسی موجود ہستی کا
مزہ لیتا ہے دِل یہ دِل ہی دِل میں خود پرستی کا
مری سنجیدہ فِطرت کو بہت خوشحال کرتی ہے
تری خُوشبو کہیں جب میرا استقبال کرتی ہے
یہ مہکا مہکا لمحہ مُدّتوں تک یاد آتا ہے
سفر کی ابتدا سے منزلوں تک یاد آتا ہے
تری محفِل سے لے کے خلوتوں تک یاد آتا ہے
ترے اِس قُرب سے اُن فاصلوں تک یاد آتا ہے
یہ اک لمحے کو دن ہفتے مہینے سال کرتی ہے
تری خُوشبو کہیں جب میرا استقبال کرتی ہے
چمن سے عشق کے یا حُسن کی جنّت سے آتی ہے
مہک تیری کسی ہنگامئ عشرت سے آتی ہے
اے روحِ رشکؔ یہ خُوشبو بڑی حکمت سے آتی ہے
حقیقت معرفت اللّٰہ کی قُدرت سے آتی ہے
ہر اک باطل عقیدے کو وہیں پامال کرتی ہے
تری خُوشبو کہیں جب میرا استقبال کرتی ہے

