رسوا کریگی کتنا اے غربت جگہ جگہ
مسیح الدین نذیریؔ، ممبرا

رسوا کریگی کتنا اے غربت جگہ جگہ
برسات میں ٹپکنے لگی چھت جگہ جگہ
گھر میں کوئی کسی کا نہیں کرتا احترام
اور ڈھونڈھتے ہیں شہر میں عزت جگہ جگہ
وہ حال ہوگیا ہے ترے روٹھنے کے بعد
خود اپنی کر رہاہوں شکایت جگہ جگہ
آنکھیں اٹھا کے دیکھ ملے گی لکھی ہوئی
بابِ وفا میں میری حکایت جگہ جگہ
دشمن وطن کے حُبِّ وطن کے لباس میں
پھیلا رہے ہیں ملک میں نفرت جگہ جگہ
ہم بھی تھے باوقار اٹھاؤ ذرا نظر
بکھری پڑی ہے اپنی وراثت جگہ جگہ
ڈوبے ہوئے ہیں شیخ اسی کام میں مگر
کرتے ہیں وعظ شہر میں حضرت جگہ جگہ
نقشہ اٹھا کے دیکھ لو ہندوستان کا
بکھرا ہے میرا خونِ شہادت جگہ جگہ
سمجھے گا کون درد نذیریؔ حیات کا
یوں داستانِ درد سنا مت جگہ جگہ

