قربانی
غزل
ذوالفقار صعیدی، ممبرا
میزبانی اٹھ گئی اب رسمِ مہمانی بچی
اٹھ گیا عشقِ خلیلؑ ، اب رسمِ قربانی بچی
اب نہ فاروقی نہ عباسی نہ عثمانی بچی
ظالموں کے ہاتھ میں دنیا کی سلطانی بچی
فصلِ گل کے بعد کیا تھا صرف ویرانی بچی
ہو گئیں بےنور صبحیں شام بیگانی بچی
عید کے دن مقتدی ہیں خوبرو پوشاک میں
بس امامِ وقت کی اک چاک دامانی بچی
شام کے دلکش مناظر لہلہاتی کھیتیاں
بہہ گئی جب فصل تو اک آس انجانی بچی
جو تھے فطرت کے تقاضوں کے محافظ آجکل
انکے حصے میں فقط شاہوں کی دربانی بچی
مطمئن تھا میں صعیدیؔ صرف کل کی آس پر
بِک گئے سارے اثاثے تنگ دامانی بچی

