میری جان ہے تو۔۔
نظم (شریکِ حیات حسنیٰ کے نام)
زبیؔر گورکھپوری، ممبرا
ہے تِرا پیکرِ موزُوں کہ حسیں تاج محل
یا کسی شاعرِ خوش فکر کی شَہکار غزل
فلسفہ ہے تُو کسی فلسفئ دوراں کا
یا کسی صوفئ کامل کی دعاؤں کا بدل
تُو کہ تصویر کسی شوخ مُصوِّر کی ہے
یا کسی زاہدِ دیں دار کی نیندوں کا خَلَل
خالقِ ارض و سماوات کی تخلیق ہے تو
یا کسی عاشقِ آوارہ کی تقدیر اٹل
کر سکا کوئی نہ اب تک تِرے اوصاف رقم
تھک گئے کتنے ہی افسانہ نگاروں کے قلم
جاگتے ذہن کا عنوان، کہانی تیری
اک قیامت کا مُرقّع ہے جوانی تیری
تیری زُلفوں سے ہوئی شامِ اَوَدھ شرمندہ
اور پھُولوں میں ہے خُوشبوُ کا تصوُّر زندہ
تیری پیشانی مُناجاتِ مُحبت کی کتاب
عارِض و لب ہیں کہ دو کھِلتے ہوئے تازہ گُلاب
تیرے ابرُو سے عیاں کعبۂ دل کے منظر
اور آنکھیں ہیں مروّت کے چھلکتے ساغر
آئینے کی طرح شفاف ہے تیرا چہرہ
اور تِرا ظرف سمندر سے زیادہ گہرا
تیری آواز ترنّم کا خزانہ جیسے
نئے موسم نئے لہجے کا ترانہ جیسے
گفتگو لیتی ہے الفاظ و معانی سے خراج
تیری خاموشی بھی ہے شعلہ بیانی کا مزاج
شاخِ گل نے تِری بانہوں سے لچکنا سیکھا
اور غُنچوں نے تبسّم سے چٹکنا سیکھا
صبحِ نَو ہے ترے رنگین بدن کا سَرقہ
استفادہ تِری رفتار سے کرتی ہے صبا
میرے اشعار کے ہر لفظ کا مفہوُم ہے تُو
میری تخلیق کے اوراق پہ منظوُم ہے تُو
تیرے عَیبوں سے بھی تہذیب جنم لیتی ہے
منتشر تُو ہو تو ترتیب جنم لیتی ہے
کتنا شرمندہ ہے تجھ سے مِری تحقیق کا باب
ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتا کہیں تیرا جواب
میری غَزلوں کا تعارُف مِری پہچان ہے تُو
تو نہ بَرہَم ہو تو کہہ دوں کہ مِری جان ہے تُو
حاصلِ عِشق ہے تُو تیری توجہ کے بغیر
کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں تیرا زُبیرؔ

