میری بیٹی
نظم
مسیح الدین نذیریؔ
کوئی جب اپنے بچے کو کھلاتا ہے تو روتا ہوں
مری بیٹی کا بچپن یاد آتا ہے تو روتا ہوں
وہ پہلی بار کا ہنسنا وہ پہلی بار کچھ کہنا
کوئی آکر کے جب مجھ کو بتاتا ہے تو روتا ہوں
کہیں پر اپنے بچے کو سلانے کے ارادے سے
کوئی پیاری سى لوری گنگناتا ہے تو روتا ہوں
مری بچی کے ننھے پاؤں کب پہلی دفعہ اٹھے
وہ منظر ذہن میں جب جگمگاتا ہے تو روتا ہوں
اٹھاتا گود میں تجھ کو تو مجھ سے کھیلتی رہتی
مری بیٹی یہ ارماں جب ستاتا ہے تو روتا ہوں
مری انگلی پکڑ کر کس طرح چلتی مری بیٹی
یہی احساس جب جب جاگ جاتا ہے تو روتا ہوں
میں گھر میں آتا بیٹی دوڑ کر بانہوں میں آجاتی
تصور میرا جب بانہیں بڑھاتا ہے تو روتا ہوں
تصور کے گلستانوں سے دنیائے حقیقت تک
کوئی جب کھینچ کر کے مجھ کو لاتا ہے تو روتا ہوں
مرا جب دوست کوئی اپنے بچوں کے لیے مجھ کو
کھلونوں کی دکاں پر لے کے جاتا ہے تو روتا ہوں
کسی معصوم حرکت سے کسی ننھی شرارت سے
کوئی بچہ کسی کو جب ہنساتا ہے تو روتا ہوں
کوئی معصوم بچہ شرط رکھ کر باپ سے اپنے
کبھی جب دوڑتا ہے جیت جاتا ہے تو روتا ہوں
کوئی بچہ کبھی انگلی پکڑ کر اپنے والد کی
یونہی کچھ کہتے کہتے مسکراتا ہے تو روتا ہوں
مسرت کے کسی موقع پہ جب اسکول کے اندر
کوئی بچہ خوشى کے گیت گاتا ہے تو روتا ہوں
اچانک چلتے چلتے راہ میں چھپ کر کوئی بچہ
جب اپنے باپ کا دل آزماتا ہے تو روتا ہوں
کوئی بچہ سواری کے لیے معصوم خواہش سے
جب اپنے باپ کو گھوڑا بناتا ہے تو روتا ہوں
جب اپنے توتلے پن سے کسی بھی چیز کی خاطر
کوئی بچہ کبھی جب ضد پہ آتا ہے تو روتا ہوں
کسی بچے کو جب بھی دیکھتا ہوں ساتھ والد کے
تو میرا شوق میرا دل لبھاتا ہے تو روتا ہوں
کوئی بچہ کبھی جب ناؤ کاغذ کی بناتا ہے
اسے بارش کے پانی میں بہاتا ہے تو روتا ہوں
مری بیٹی جو میرے پاس ہوتی وہ بھی یوں کرتی
تصور جب یہی منظر گھماتا ہے تو روتا ہوں
مری بیٹی مرا سب کچھ ہے میرے دل کا ٹکڑا ہے
نہ ہونے کا مگر احساس چھاتا ہے تو روتا ہوں
سوا تیرے مری بیٹی مرے پاس ایک دنیا ہے
مجھے تیری کمی کا غم ستاتا ہے تو روتا ہوں
میری بچی تیرا معصوم بچپن چھن گیا مجھ سے
یہی احساس میرا منہ چڑھاتا ہے تو روتا ہوں
تو میرے پاس آکر کھیلتی ہے خواب میں میرے
اسی دم نیند سے کوئی جگاتا ہے تو روتا ہوں
مرے حالات نے مجھ سے الگ کردی مری بیٹی
وہ منظر ذہن کے پردے پہ چھاتا ہے تو روتا ہوں
مری بیٹی تری فرقت کا غم سینے میں تازہ ہے
یہ غم سینے میں جب طوفاں اٹھاتا ہے تو روتا ہوں
میں آخر کیا کروں میں بے بسی کا ایک پیکر ہوں
میرے سینے میں دل ہے دل رُلاتا ہے تو روتا ہوں
نذیریؔ وہ مری بیٹی ہے میرے دل کا ٹکڑا ہے
کہ میرے خون کا جب اس سے ناتا ہے تو روتا ہوں

