ذرا ہم سے ملو
نظم
زبیؔر گورکھپوری، ممبرا
ذرا ہم سے ملو دنیا ہمیں مزدور کہتی ہے
دیا کرتی ہے طعنے مفلس و مجبور کہتی ہے
سمجھتی ہے کہ ہم اک بوجھ ہیں دھرتی کے سینے پر
ہمیں مجبور کرتی ہے خود اپنے اشک پینے پر
ہمارا عزم دانستہ نظر انداز کرتی ہے
ستم ہم پر ہر اک لمحہ یہ فتنہ ساز کرتی ہے
خبر اس کو نہیں شاید یہ رنگ و نور ہم سے ہیں
رعونت کے نشے میں صاحبِ زر چُور ہم سے ہیں
محل شاہوں کے ہوں یا پھر حویلی ہو نوابوں کی
چمن کے خار و خس ہوں یا کہ ہو خُوشبو گلابوں کی
ہر اک منظر کو حُسن و دلکشی ہم سے ہی حاصل ہے
ہمارا ہی پسینہ ان کی بنیادوں میں شامل ہے
فلک سے بات کرتا یہ قطب مینار دیکھو تو
منقّش تاج کے رنگیں در و دیوار دیکھو تو
یہ اونچی، اونچی بلڈنگیں کہو تو کس کے بل پر ہیں
مزیّن عیش و عشرت سے امیروں کے سبھی گھر ہیں
یہ جتنے چونچلے دنیا میں ہیں سرمایہ داری کے
کرشمے ہیں ہمارے عجز کے طاعت گزاری کے
میسّر ہیں جو لمحے اہل زر کو عیش و راحت کے
شگوفے ہیں ہماری ہی یہ محنت کے مشقّت کے
بہت مغرور ہیں یہ بوالہوس اونچی عمارت پر
ہمارے جھونپڑے ہیں داغ ان کی شان و شوکت پر
تفکر روزی روٹی کا مسلسل ہم پہ طاری ہے
خیالِ شادمانی روح پر اک ضربِ کاری ہے
گذرتے کیسے ہیں شام و سحر ہم خستہ حالوں کے
کوئی پوچھے ذرا ہم سے مزے سُوکھے نوالوں کے
یہ عالیشان کالج اور یہ عالیشان اسکولیں
ہیں وابستہ ہماری محنتوں سے جن کی تعمیریں
امیروں کے ہی بچوں کے لئے ہیں ڈگریاں جن کی
غریبوں کے لئے اک خوابِ خوش ہیں کرسیاں جن کی
یہ گرجا گھر یہ مندر اور مسجد کے یہ مینارے
ہماری جانفشانی کے عیاں ہیں ان سے نظّارے
نگاهِ غور سے دیکھو تو یہ سنگین تعمیریں
نظر آئیں گی ان میں صرف مزدوروں کی تصویریں
ہمارے آج میں مضمر ہے جو کل ، کون دیکھے گا
پڑے ہیں پیٹ پہ جو بھوک سے بل کون دیکھے گا
کسی دن پیٹ بھر کھانا کبھی ملتا نہیں ہم کو
زبیرؔ اُس پر بھی دُنیا سے کوئی شکوہ نہیں ہم کو
ذرا ہم سے ملو دنیا ہمیں مزدور کہتی ہے
دیا کرتی ہے طعنے مفلس و مجبور کہتی ہے

