
میں مسلسل چپ ہوں۔۔۔
غزل
ایاز بستوی

ساتھ دیتا ہے زمانہ شادمانی دیکھ کر
کوئی نمدیدہ کہاں آنکھوں کا پانی دیکھ کر
رزق کی خاطر عطا کی نعمتوں کی سرزمیں
رشک آتا ہے خدا کی میزبانی دیکھ کر
اب برائی کو برائی کون سمجھے ہے میاں
کون سیدھی راہ پر ہے حق بیانی دیکھ کر
رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے اس لئے میرا وقار
میں مسلسل چپ ہوں تیری لن ترانی دیکھ کر
خواب کی مانند ہے یہ زندگانی کا سفر
اب بڑھاپا دیکھتا ہوں میں جوانی دیکھ کر
مظہر قدرت ہے یہ گیسوئے شب پر چاندنی
ٹھہرا ٹھہرا سا ہے موسم رات رانی دیکھ کر
کیا پتہ تھا میں بھٹک جاؤں گا سیدھی راہ سے
رک گیا میں بھی تری جادوبیانی دیکھ کر
اس جہان بے وفا میں جب کوئی اپنا نہیں
"آگئے آنسو تمہاری مہربانی دیکھ کر "
تم سر محفل ابھی تک کیوں نہ کھل پائے ایازؔ
کیا یہ خاموشی ہے کوئی ناگہانی دیکھ کر


