ماں
نظم
زبیؔر گورکھپوری، ممبرا
ایسی نہ ملی کوئی مُجھے سارے جہاں میں
جو لوری سناتی تھی بڑی میٹھی زباں میں
جو دوڑ رہا ہے مرے اعصاب نہاں میں
یہ خون نہیں دودھ ہے اُس کا رگِ جاں میں
روتا تھا تو آنگن میں وہ ٹہلاتی تھی مجھ کو
گہوارۂ آغوش میں بہلاتی تھی مجھ کو
بجلی جو کڑکتی تو کلیجے سے لگاتی
وہ سرد ہواؤں سے رضائی میں چھپاتی
خود گیلے میں سوتی مجھے سوکھے میں سلاتی
میرے لئے ہر طرح کی تکلیف اُٹھاتی
پانی پہ مجھے پھونک کے آیات کریمہ
پڑھ پڑھ کے پلاتی وہ مناجات کریمہ
خُون اُس نے پلا کر مری صحت کو سنوارا
ہنسنا مرا لگتا تھا نہایت اُسے پیارا
اک چھینک مری اُس نے کبھی کی نہ گوارا
اس پر چڑھا رہتا تھا مری فکر کا پارہ
کاجل وہ لگاتی کہ نظر مجھ کو نہ ہو جائے
بدروحوں کے سائے کا اثر مجھ کو نہ ہو جائے
تنہا نہ کبھی چھوڑ کے جاتی تھی مری ماں
دنیا کی بلاؤں سے بچاتی تھی مری ماں
گڈے کی طرح مجھ کو سجاتی تھی مری ماں
بچہ تھا تو بسم اللہ پڑھاتی تھی مری ماں
زہرہ ؓ کی طرح اُس میں بھی اخلاص کی بو تھی
دادی یہ بتاتی ہیں بہت اچھی بہو تھی
تیرے لئے ماں باپ کا در بُھول گئی تھی
کب شام سے ہوتی ہے سحر بھول گئی تھی
جس گھر میں ہوئی پیدا وہ گھر بھول گئی تھی
رکھنا تھا اُسے یاد ، مگر بھول گئی تھی
پاگل سا بنا دیتی تھیں بیماریاں تیری
شہنائیاں لگتیں اُسے کلکاریاں تیری
جِس بی بی کی آغوش میں بچہ نظر آتا
اُس میں اے زبیرؔ امّی کا جلوہ نظر آتا
اُس چہرے پہ بس اُس کا ہی چہرہ نظر آتا
یا مجھ کو نظر آتا تو کعبہ نظر آتا
اے دوسری دنیا کے مسافر مری ماں سے
کہنا مرا دل اُوب گیا سارے جہاں سے

