لوگوں سے اپنا حال چھپاتے ہوئے چلے
غزل
عمرؔ فراہی، ممبئی
لوگوں سے اپنا حال چھپاتے ہوئے چلے
لوگوں کو پھر بھی ہنستے ہنساتے ہوۓ چلے
تاریکیوں میں بھی رہے ہم راستے کے میر
جگنوں کی طرح خود کو جلاتے ہوۓ چلے
شیشہ گروں کے شہر سے ہم سادگی پسند
گزرے تو آبرو کو بچاتے ہوئے چلے
اف دوستوں کا طرز حریفانہ یا خدا
کچھ دشمنوں سے ہاتھ ملاتے ہوۓ چلے
ہر ہر قدم پہ لٹنے کا تھا خوف اس لئے
ہم راستے میں شور مچاتے ہوۓ چلے
گمراہیوں کا اپنے یقیں تھا اسی لئے
ہم اپنے نقش پا کو مٹاتے ہوۓ چلے

