جلے مکاں کے دھویں کو ہی اب صبا کہیے
دہلی فسادات کے بعد کہی ایک غزل


مرے لہو کو مرے زخم کی دوا کہئے
جلے مکاں کے دھویں کو ہی اب صبا کہئے
بلکتے شہر کی گلیوں سے اگنے والی سحر
سحر نہیں ہے اسے رات کی قضا کہئے
لہو رلاتی رہی جو وفا کی تعبیریں
وفا نہ کہئے اسے اب اسے جفا کہئے
بڑھے گا ظلم تو اٹھ جائے گا لحاظ و ادب
ہمارا ہاتھ جو اٹھا تو مقتضا کہئے
سبھی نے صبر کی تلقین کی ہمیں لیکن
چھلک بھی جائے یہ ساغر کبھی تو کیا کہئے