
فیصلہ لکھتے ہی منصف نے قلم توڑدیا
غزل
ذوالفقار صعیدی، ممبرا
عشق کا گردشِ دوراں نے بھرم توڑ دیا
غیر کے در پہ گرا گرتے ہی دم توڑ دیا
کر کے اقرار چلا جانبِ منزل لیکن
آبلہ پائی نے وہ سارا بھرم توڑ دیا
اک تبسّم سے بدل جاتا زمانے کا مزاج
زعم میں آیا تو مفلس پہ ستم توڑ دیا
وہ بھی تھا عہدِ وفا توڑ کے ساری رسمیں
صاف دل بیٹے نے والد کا صنم توڑ دیا
کوئی بتلائے مرا جرم کہ خود میرے خلاف
فیصلہ لکھتے ہی منصف نے قلم توڑ دیا
منتظر تھا وہ سرِ دار یدِ شفقت کا
بس اسی جرم نے عاشق پہ ستم توڑ دیا
وہ مشابہ تھا درِ یار پہ جانے والا
خوش لباسی ہی نہیں جاہ و حشم توڑ دیا
وہ تو راضی ہے صعیدیؔ پہ تری قسمت میں
سانس باقی ہے مگر آس نے دم توڑ دیا

