
بیٹی
نظم
زبیؔر گورکھپوری، ممبرا
تیرے سینے میں ہے دریائے محبت بیٹی
جو کبھی صرف نہ ہو تُو ہے وہ دولت بیٹی
تُجھ پہ قربان ہے اللّٰہ کی رحمت بیٹی
تیری مُٹھی میں ہے ماں باپ کی جنت بیٹی
تُجھ کو یوں جانتے ہیں سارے زمانے والے
پیار کرتے ہیں تجھے تیرے گھرانے والے
تیری فِطرت میں ہے بے لوث مُحبت کرنا
دِل کی گہرائی سے شوہر کی اطاعت کرنا
اپنے سسرالیوں کی جان سے خدمت کرنا
گھر میں فاقہ ہو تو چُپ چاپ قناعت کرنا
جاں نثاری تری رگ رگ میں بسی ہے بیٹی
تیرے چہرے پہ فرشتوں کی ہنسی ہے بیٹی
تُو قلندر ہے تُو صوفی ہے یا مجذوب ہے تُو
تُو گدا ہی کو نہیں شاہوں كو بھی محبوب ہے تُو
ماں ہےدادی ہے تُو نانی ہےبہت خُوب ہے تُو
کون سا رِشتہ ہے جس سےنہیں منسوب ہے تُو
رضیہ سلطانہ ہے تُو لکشمی بائی تُو ہے
چھوئی موئی کی طرح تیری پُرانی خُو ہے
تُجھ کو پاکر میں بہت خوش ہوں فقط یہ غم ہے
اِس ترقّی کے زمانے کا عجب عالم ہے
آج کے دور میں تہذیب و تمدنّ کم ہے
دِل میں ایمانی چراغوں کی ضیا مدّھم ہے
اب تو اللّٰہ سے بھی لوگ نہیں ڈرتے ہیں
غونچگی راستے میں چھین لیا کرتے ہیں
زندہ بیٹی کو یہاں دفن کیا جاتا تھا
ماں کے ہاتھوں سے یہ کام لیا جاتا تھا
بیٹا جنتی تھی تو انعام دیا جاتا تھا
اوک سے مدرا کو دعوت میں پیا جاتا تھا
کل میں اور آج میں کس بات کا ہے فرق زبیر ؔ
ساری دُنیا ہوس نفس میں ہے غرق زبیرؔ

