اک تجسس ہے ہر گھڑی دل میں
غزل
عمر فراہی، ممبئی
My post content
اک تجسس ہے ہر گھڑی دل میں
زندگی بھی عجب پہیلی ہے
اک سر نخل دشت میں جیسے
اک تمنا کی آگ جلتی ہے
اک زمانے سے کوئی خاموشی
مجھ سے یوں ہم کلام رہتی ہے
جیسے وہ شاعری کے لہجے میں
ہر گھڑی مجھ سے بات کرتی ہے
منزلیں دھوپ چھاؤں اور تھکن
نامکمل سفر حیات کا اور
تشنگی اور کچھ نشیب و فراز
آرزو راہ میں سسکتی ہے
اف یہ تہذیب کی رواداری
اف یہ مکتب یہ سامری کا نصاب
بنت حوا کی سادگی توبہ
فاطمہ بے حجاب رہتی ہے
وہ جو ممتاز ہے تو ملکہ بھی
سنگِ مرمر بھی اور تاج محل
اور وہ رام کی جو سیتا ہے
وہ تو اک سیدھی سادی لڑکی ہے
کون آنکھوں میں تکتے رہتا ہے
اس کے بن خواب کیوں ادھورے ہیں
نیند پلکوں پہ آ کے کیوں اکثر
پاگلوں کی طرح بھٹکتی ہے

